
جب میں استاذ العلماء علامہ محمد عمران قادری ضیائی صاحب کے پاس هدایة النحو پڑھتا تھا اس وقت آپ مغنی اللبیب کا مطالعہ کرتے تھے، آپ کے پاس مغنی اللبیب کا ایک نسخہ دیکھا جو جہازی سائز میں تھا، اس پر عجیب طرز پر حاشیہ لگا ہوا تھا، چھوٹے خط میں باریک قلم سے لکھا ہوا، اور اس کا خط بھی دیگر حواشی کے خط سے مختلف تھا، استاذ صاحب نے فرمایا کہ یہ “استمبلی” حاشیہ ہے۔ چونکہ میں هدایة النحو کا طالب علم تھا اس لیے صرف اس کی زیارت کرتا تھا،،، البتہ 2011 سے 2014 تک تین سالوں میں استاد محترم نے درسی کتب و حواشی سے محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی، اس لیے ان تین سالوں میں پڑھنے والی کتب میں سے تقریباً کے دو سے تین حاشیے اکثر عربی اور فارسی، ضرور میرے پاس ہوتے۔
حواشی اور شروح کی محبت ہی تھی کہ 2014 میں کتابیں خریدنے کے لیے پہلی بار اکیلا کوئٹہ کا سفر کیا، صبح 8 بجے کوئٹہ پہنچا، پورا دن کتب خانوں میں گزارا درسی کتب، حواشی اور شروحات سے دو کارٹون بھرے اور رات 8 بجے واپسی کی بس میں بیٹھ گیا، اس سفر میں خاص نحو اور صرف کی مبتدی اور منتھی کتب کے حواشی اور شروحات اور منطق کی ابتدائی کتب کے حواشی اور شروحات لینے پر زیادہ توجہ تھی، منطق میں خاص ایساغوجی۔
وہاں مجھے فناری علی قول احمد ،جامی اور حاشیۂ عصام علی الجامی پر استمبلی حاشیے ملے، دیکھ کر بہت دل خوش ہوا کہ یہ حواشی اب بھی شائع ہورہے ہیں، پھر مزید وہاں کھوج کی لیکن ان تین کے علاوہ کوئی استمبلی حاشیہ نہیں ملا،
2014 مین استاذ صاحب سے جب شرح تھذیب پڑھ رہا تھا تو آپ کے پاس شرح تھذیب پر بھی استمبلی حاشیہ دیکھا، آپ نے کوئٹہ کے کسی کتب خانے سے خریدا تھا، چونکہ استاذ صاحب جس کتاب سے مطالعہ کرتے تھے میں وہ کتاب حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرتا تھا، لیکن وہ حاشیہ کراچی کے کسی کتب خانے سے ملنا مشکل تھا اس لیے استاذ صاحب سے لےکر فوٹو کاپی کروا لیا۔ اسی طرح شرح تھذیب کے کئی حواشی ہیں لیکن اس کی عربی شرح ایک ہی ہے “رفع الغواشی” جو ایران سے شائع شدہ تھی، وہ بھی اسی وقت استاذ صاحب سے لےکر فوٹو کاپی کروا لی، یوں کئی حواشی اور شروح استاذ صاحب سے لےکر فوٹو کاپی کروا چکا ہوں،
استمبلی حاشیہ کسی خاص محشی کا لکھا ہوا نہیں ہوتا، بلکہ دو یا تین محشی کے مکمل حواشی کو کتاب کے ساتھ ترتیب سے جمع کیا جاتا، یا کتاب کے مختلف حواشی اور اس فن کی دیگر کتب سے استفادہ کرکے حاشیہ باحوالہ لکھا جاتا ہے جسے چربہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ “یعنی ہوبہو نقل کردینا” لیکن یہ کام کرنے والے جو بھی حضرات تھے انہوں نے بڑی محنت کی ہے، آپ کو کسی مقام پر لگا کوئی حاشیہ فضول نظر نہیں آئے گا، محسوس ہوگا کہ مقام اس کا مقتضی تھا،
پہلے جو حواشی چربہ ہوا کرتے تھے، وہ بھی کسی لائق فائق مدرس نے لگائے ہوتے تھے، اس وجہ سے کتاب پڑھتے ہوئے مفید ثابت ہوتے ہیں، اور کمال یہ کہ اکثر پر نام بھی نہیں ملتا کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ جبکہ اب کے چربے حواشی ایسے ہیں کہ محشی کا نام اس پر محشی کی علمی استعداد اور علمی مقام کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔
پھر جب 2015 میں دوبارہ کوئٹہ کا سفر کیا تو اس سفر میں علامہ عبد المصطفی ہمدمی (اللّٰه رحم) صاحب اور علامہ حافظ احمد یوسف صاحب ساتھ تھے، اس بار اصول فقہ، منطق، فلسفہ اور علم کلام کی کتب ہماری ترجیحات میں تھیں، اس سفر میں کتب خانوں میں گھوتے ایک دکان میں داخل ہوئے، یہ باقاعدہ کوئی کتب خانہ نہیں تھا بلکہ ایک صاحب کو جہاں سے کتابیں ملتی وہ بس بیچنے کے لیے لے آتے تھے، بہت برا حال تھا، گرد و غبار کا انبار تھا لیکن ہمارے مطلب کی جگہ تھی، خوب کتابیں چھانٹی کی، وہاں سے شرح تھذیب والا وہ حاشیہ جو استاد صاحب سے لےکر فوٹو کاپی کروایا تھا اس کا مطبوعہ نسخہ مل گیا، اس میں ایک فارسی حاشیہ زیادہ ہے اور آخر میں صدر شیرازی کا تصور اور تصدیق سے متعلق مقالہ بھی ہے، کمال کی بات یہ تھی کہ صرف 30 روپے میں مل گیا، فقیر نے 5 نسخے خرید لیے، استاد محترم اور دیگر حضرات کے لیے،
بات چل رہی تھی استمبلی حاشیہ سے متعلق، کوئٹہ کے اس دوسرے سفر میں کافیہ اور تلخیص المفتاح اور حسن چلپی علی المختصر پر استنبلی حاشیہ ملا، تو اندازہ ہوا کہ اس قسم کے حواشی کو “استمبلی” یا “مُقَیَّد” کا ٹائٹل دیتے ہیں،
گزشتہ دنوں آرکائیو پر کتابوں کو سرچ کر رہا تو اس میں حاشیہ خیالی پر “اسمتبلی” حاشیہ دیکھا تو اس حاشیہ سے سابقہ محبت نے اسے ڈاؤنلوڈ کر کے محفوظ کرنے پر مجبور کردیا عنقریب ہارڈ کاپی میں کتب خانے کی زینت بن جائے گا۔
درس نظامی کے دوران عربی و فارسی حواشی اور شروح سے محبت کسی نعمت عظمی سے کم نہیں لیکن یہ وہ محبت ہے جو محب کو بڑی مہنگی پڑتی ہے، بہت خرچہ کرواتی ہے، اللّٰه بھلا کرے میرے استاذ کا جنہوں نے اس محبت کے جام تو پلائے لیکن ابتدا میں اس جام کا خرچہ خود برداشت بھی کیا، آج بھی وہ دن نہیں بھولتا جب 2011 میں کہ ابھی درس نظامی کا پہلا سال ہی تھا، استاذ صاحب کے پاس شام کو کوچنگ کے بعد بادامی مسجد میں نحو کا اجراء کرتا تھا، اس وقت ایک کرم فرما استاد صاحب سے قاضی مبارک پڑھتے تھے، جو یہ تحریر پڑھ کر سمجھ جائیں گے، ایک دن استاذ صاحب نے کتابوں کے چار بنڈل دیے اور فرمایا
“یہ تمہارے ہیں، میر محمد کتب خانہ آرام باغ بند ہو رہا ہے، یہ اچھی کتابیں اس نے شائع کی ہیں، آئندہ کام آئیں گے تم کو”
میں نے کہا حضرت اتنی کتابیں، ان کی قمیت کیا ہے؟ فرمایا بس لے جاؤ،،،
ان چار بنڈلوں میں شرح وقایہ اولین آخرین، مطول، سراجی، دستور العلماء، درایة النحو شرح هداية النحو، کافیہ، اصول شاشی، قطبی، ھداية الحكمة، گلزار دبستان، متن کافی وغیرہ تھیں۔
اللّٰه تعالی میرے تمام اساتذہ کو برکات کثیرہ سے نوازے اور انہیں دنیا اور آخرت کی خوب بھلائیاں نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ