(جب میں نے مضامین لکھنا شروع کیے تو یہ میری دوسری تحریر تھی جو عظیم محسن اہلسنت سے متعلق لکھی تھی)

0

12 صفر 1278ھ یوم وصال خاتم الحکماء علامہ محمد فضل حق خیر آبادی نور الله مرقده از: محمد انس رضا قادری مرشد گرامی علامہ سید شاہ تراب الحق قادری نور الله مرقدہ جب 1857ء کی جنگ آزادی اور تحریک پاکستان کا ذکر فرماتے تو ایک عظیم شخصیت، افضل الفضلاء اکمل الکملاء خاتم الحکماء احسن العلماء مرد مجاہد علامہ محمد فضل حق خیر آبادی فاروقی حنفی چشتی کا ذکر ضرور کرتے اور فرماتے تھے کہ “مورخین نے ان کےساتھ انصاف نہیں کیا، تاریخ نویسوں نے انہیں بھلادیا، اور ان کے کردار کو محو کرنے کی کوشش کی” یہ حقیقت ہے کہ علامہ کی مذہبی اور سیاسی خدمات پر پردہ ڈالنے کی سعی بلیغ کی گئی لیکن ایسا کیوں کیا گیا..؟ چناچہ مشہور ادیب نادم سیتاپوری لکھتے ہیں: “انگریز اور ان کے ہوا خواہ تو مولانا فضل حق خیر آبادی سے اس لیے ناراض تھے کہ انقلاب سن ستاون کے سلسلہ میں کسی نہ کسی نہج سے ان کا نام آگیا تھا، لیکن خود مسلمانوں کا ایک پروپیگنڈسٹ گروپ مولانا سے اس لیے بیزار تھا کہ وہ ان کے مذہبی نظریات کے خلاف عالمانہ مجاہدہ کرچکے تھے، یہ باوقار علمی مباحثے کوئی ذاتی اور عامیانہ جنگ نہیں تھی جس کا سہارا لے کر مولانا خیرآبادی کے خلاف مستقل محاذ قائم کردیا جاتا، لیکن ہوا کچھ ایسا ہی” (امتیاز حق ص14، بحوالہ غالب نام آورم) فرنگیوں کی نمک حلالی اور اکابر پرستی کے جنون میں علامہ خیرآبادی کے احسان عظیم کو فراموش کیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ من گھڑت روایات و واقعات کو علامہ کی طرف منسوب کرکے ان کے کردار کو نشانہ بنایا گیا، نیز اُن باغیان اسلام کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور اُن کی جدوجہد کے گن گائے گئے جنہوں نے اہانت رسول میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مسلَّمات دینیہ کو مسخ کر کے پیش کیا، اور مسلمانوں کے خون سے اپنی تلواروں کو رنگا۔ مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہوجائے آپ نے 1212ھ/1797ء میں قصبہ خیرآباد ضلع سیتاپور کے گھرانہ علم و فضل میں آنکھ کھولی، آپ کے والد ماجد علامہ فضل امام خیرآبادی علوم عقلیہ کے ممتاز عالم دین تھے، آپ کا سلسلہ نسب 33 واسطوں سے خلیفہ ثانی امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق سے ملتا ہے، آپ نے اپنے والد کی درسگاہ سے تعلیمی مراحل طے کیے، علم حدیث کے حصول کے لیے شاہ عبد القادر محدث دہلوی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے، آپ کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ 13 سال کی عمر میں مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کرلی اور تقریبا چار ماہ میں قرآن مجید حفظ کرلیا، اس بات پر اپنوں اور غیروں سب کا اتفاق ہے کہ علامہ کشور علم کے تاجدار اور فلسفہ و منطق کے امام تھے۔ چناچہ سرسید لکھتے ہیں: “جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکر عالی نے بنا ڈالی ہے” (آثار الصنادید) تعلیم کی تکمیل کے بعد دہلی، الور، رامپور اور اودہ میں ملازمت کرتے رہے، ساتھ ساتھ تقریبا نصف صدی (1225ھ تا 1275) تک تدریسی سلسلہ بھی جاری رہا ، تلامذہ کی ایک بڑی تعداد نے آپ کے حلقۂ درس سے استفادہ کیا، آج بھی پاک و ہند کے مدارس میں نورانیت اُسی حلقۂ درس کے فیضان سے ہے۔ انگریزوں کے ایماء پر انتشار مسلم کے لیے رسوائے زمانہ کتاب “تقویت الايمان” (مصنف شاہ اسماعیل دہلوی) کی اشاعت کی گئی، جس میں انبياء کرام اور اولیاء عظام کی شان میں تنقیص کا دروازہ کھولا گیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو مشرک قراردیا گیا، نیز اس کتاب میں یہ تک لکھ دیا کہ: “اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن اور فرشتے جبرئیل اور محمد کے برابر پیدا کر ڈالے” علامہ خیرآبادی نے سب سے پہلے اس پر گرفت کی کیونکہ آپ اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس عبارت سے اٹھنے والے دو بڑے فتنوں (انکار ختم نبوت اور امکان کذب ) کو بھانپ چکے تھے، آپ نے پہلے مختصر تحریر “تقریر اعتراضات بر تقویت الایمان” لکھی، جس میں ثابت کیا کہ حضور کی نظیر ممتنع بالذات ہے، اس تحریر کے جواب میں اسماعیل دہلوی نے ایک رسالہ بنام “یکروزی” تصنیف کیا، اس رسالہ میں امکان نظیر سے امکان کذب کے مسئلہ پر جا پہنچے اور شان رسالت میں گستاخی کے بعد شان الوہیت میں تنقیص کی مرتکب بن گئے، بالآخر علامہ نے دلائل مسکتہ عقلیہ و نقلیہ سے مزین دو کتابیں، “تحقيق الفتوی فی ابطال الطغوی” اور “امتناع نظیر” کے نام سے تصنیف کر کے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا۔ 1857ء کا انقلاب جب شروع ہوا تو آپ الور سے دہلی آئے اور بہادر شاہ ظفر سے آپ کی ملاقاتیں رہیں، جہاد آزادی کے حوالہ سے بادشاہ کے ساتھ کئی مشوروں میں شریک ہوتے، بالآخر بعد نماز جمعہ دہلی کی جامع مسجد میں علماء کے سامنے جہاد کے عنوان پر تقریر کی اور ایک استفتاء پیش کیا، جس پر جید علماء نے دستخط کیے، اس فتوی کا شائع ہونا تھا کہ پورے ملک میں ہلچل سی مچ گئی اور دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے، تمام تر کوششوں کے باوجود مجاہدین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور دیگر علماء کی طرح آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا، آپ کی جائداد ضبط کرلی گئیں، اور تاحیات قید کے لیےجزیرہ انڈیمان (کالا پانی) بھیج دیا گیا۔ آپ قصیدہ ہمزیہ میں لکھتے ہیں : لم اقترف ذنبا سوی ان لیس لی مع ھؤلاء مودۃ و ولاء میں نے اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کیا کہ ان نصرانیوں سے کسی قسم کی محبت اور دلچسپی نہیں رکھی۔ فولائهم كفر بنص محكم ما فيه للمرء المحق مراء ان کی محبت کفر ہے قرآن کی نصِ واضح سے، حق پرست انسان کو اس میں شک نہیں ہوسکتا۔ كيف الولاء وهم اعادي من له خلق السما و الارض و الانشاء ان سے محبت کیسے روا ہو جبکہ یہ دشمن ہیں اس ذات کے جن کے لیے زمین و آسمان اور تمام کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران گواہ نے علامہ سے مرعوب ہوکر جب یہ کہا کہ یہ وہ مولانا فضل حق نہیں ہیں جنہوں نے فتوی جہاد دیا تھا، اس وقت آپ نے برملا اظہار کیا کہ، “یہ جھوٹ بول رہا ہے، وہ فتوی صحیح ہے، میرا لکھا ہوا ہے، اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے” حکومت برطانیہ سے آپ کی رہائی کا پروانہ لے کر جب آپ کے بیٹے 12 صفر 1278ھ / 20 اگست 1861ء کو جزیرہ انڈیمان پہنچے تو آپ کا وصال ہوچکا تھا اور جنازہ تیار تھا، گویا پہلے ہی بارگاہ خداوندی سے عالم فناء سے آزادی کا پروانہ موصول ہوچکا تھا، آپ کی قبر انور انڈیمان میں ہے، اللہ تعالی آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔آمین آپ کئی تصانیف کے مصنف بھی ہیں، جن میں مشہور الثورۃ الھندیۃ ، امتناع نظیر، تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی(شفاعت مصطفی ﷺ)، حاشیہ قاضی مبارک،الروض المجود اور الھدیۃ السعیدیۃ ہیں